وہ جزیرہ۔۔۔ جہاں حُسن اور حیرت کی انوکھی دنیا آباد ہے

 


وہ جزیرہ۔۔۔جہاں حُسن اور حیرت کی انوکھی دنیا آباد ہے

یمن کے پراسرار جزیرے سقوطرا کے بارے میں دل چسپ حقائق

محمد اجمل طاہر آرائیں

روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین اتوار 21 نومبر 2021

بحیرۂ عرب کے بیچوں بیچ پاکستان سے 1 ہزاربحری میل (ناٹیکل میل ) کے فاصلے پر یمن کا جزیرہ سقوطرا/سُقطریٰ (Socotra)واقع ہے۔ یہ جزیرہ باقی یمن سے بھی 188 ناٹیکل میل دور ہے، جب کہ بدامنی کے شکار صومالیہ سے بہت نزدیک ہے۔ 4 جزائر کے اس مجموعے میں سب بڑا اور آباد جزیرہ سقوطرا ہی ہے۔ مشرقی اور جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ وغیرہ کا تمام بحری ٹریفک جو افریقہ کے جنوب کی جانب یا یورپ کی جانب براستہ نہر سوئز جاتا ہے، جزیرہ سقوطرا کے بہت قریب سے گزرتا ہے۔ دفاعی اہمیت کے پیش نظر برطانوی استعمار نے 1839 ء میں جنوبی یمن سمیت اس کے جزائز سقوطرا پر بھی قبضہ کرلیا تھا، جو کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے زیرتسلط آگیا، بعد میں اس پر دوبارہ برطانیہ کا قبضہ ہوگیا جسے سردجنگ کے دوران روس نے ہتھیا کر ختم کیا۔مرچنڈ نیوی سے وابستہ ایک فرد کا کہنا ہے کہ ان جزائر کے بعض اطراف اکثر سمندر بپھرا ہوا ہوتا ہے جس کے باعث بحری جہاز یہاں سے تیزی سے گزرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ بحری اہمیت کے پیشِ نظر دنیا کے صدیوں پرانے نقشوں میں بھی یہ چھوٹے چھوٹے جزائر واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

یمن کی حکومت کے خلاف بیرونی مدد سے جاری بغاوت کے باعث یمن کا امن اور معیشت دونوں ہی تباہی سے دوچار ہیں۔ لیکن یمن کے سقوطرا جزائز اس بدامنی سے قدرے محفوظ ہیں۔ متحدہ عرب امارات (جو کہ یہاں مختلف سماجی کاموں کے حوالے سے متحرک تھا) کے حوالے سے اب یہ اطلاعات زیرگردش ہیں کہ وہ یہاں تسلط کے لیے اپنا فوجی اڈا تعمیر کرنے کا خواہش مند ہے، جب کہ کچھ عرصہ قبل یمن ہی کے ایک اور نہایت اہم جزیرے مایون پر خفیہ طور پر زیرتعمیر فوجی ہوائی اڈے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں جس سے یمنی جزائر کی دنیا کی نظروں میں اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

کورونا کی عالمی وبا سے یمن میں دسمبر 2020ء تک 2 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 608 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ لیکن باقی دنیا سے الگ تھلگ ہونے کی بنا پر سقوطرا اس وبا سے محفوظ رہا۔ کورونا کے پیش نظر عالمی فضائی آپریشن معطل ہونے سے قبل یہاں موجود غیرملکی سیاحوں کو نکل جانے کا کہا گیا مگر چند یورپین سیاحوں نے عالمی لاک ڈاؤن کے دوران یہیں رہنے کو ترجیح دی اور دنیا کو کورونا کے دوران اپنے وی لاگز کے ذریعے سقُطریٰ سے خوب متعارف کروایا۔

یہ جزائز حیرت انگیز قدرتی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔ یونیسیف نے انہیں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگ سقوطرا کے بارے میں جاننے میں دل چسپی لیتے ہیں۔ لیکن بدامنی اور حکومتی عدم دل چسپی کے باعث یہ جزیرہ دنیا کی وہ توجہ حاصل نہ کر سکا جو اس کا حق تھا۔ دل کش قدرتی حسن، پہاڑوں، ساحلوں اور ریگستانوں پر مشتمل ان جزائر کی حیرت انگیز انفرادیت کی فہرست کافی لمبی ہے لیکن قارئین کی دل چسپی کے لیے ہم یہاں چند اہم خصوصیات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جن کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح یہاں کھچے چلے آتے ہیں۔

 ڈریگن بلڈ درخت

یہ اپنی نوعیت کا منفرد ترین درخت ہے۔ اس کی جسامت عموماً دیوہیکل ہوتی ہے اور یہ میلوں دور سے اپنی منفرد چھتری کے باعث پہچانا جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک دیوہیکل چھتری زمین میں پیوست کی گئی ہے۔ اپنی انوکھی شکل کی وجہ سے یہ دنیا کے شان دار درختوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

منفرد شکل و صورت کے علاوہ اس درخت کی سب سے خاص بات یہ کہ جب اسے کاٹا جاتا ہے تو اس میں سے سرخ رنگ کا گاڑھا پانی یوں نکلتا ہے جیسے کوئی جانور ذبح کر دیا گیا ہو۔ اس درخت کی انوکھی ہیئت کے علاوہ اس سے نکلنے والے خون نما پانی اس کی پراسراریت میں اضافہ کرتا ہے اسی وجہ سے اس درخت کو خون آشام بلاؤں کے تصوراتی کردار ڈریگن سے تشبیہ دی جاتی ہے اور ڈریگن بلڈ درخت کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اب تک یہ خون درجنوں بیماریوں کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے، مقامی لوگ اسے نہایت قیمتی اور مجرب نسخہ تصور کرتے ہیں۔

خاص کر درخت کے تنے کے ساتھ خون کے جمے ہوئے قطرے۔ اس درخت کا عربی نام ’دم الخوین‘ ہے۔ اس نام کے مطابق اس جگہ دو بھائیوں کے مابین خونریز لڑائی ہوئی تھی جس کے بعد یہ درخت نمودار ہوا اور یہی وجہ ہے کہ اسے کاٹنے پر خون نما پانی نکلتا ہے۔ بعض مقامی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت آدمؑؑ کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا قتل کیا۔ لیکن یہ تمام روایات تصدیق طلب ہیں۔

صحرائی گلاب

یہ عجیب الخلقت درخت بھی نہایت ہی منفرد ہے۔ اپنی منفرد ہیئت کے باعث یہ دیکھنے والے کو بہت متاثر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ سیاحوں نے اسے ’’ہاتھی کی ٹانگ والا درخت‘‘ اور کچھ نے اسے ’’بوتل درخت‘‘ کا نام دیا ہے۔ چٹیل پہاڑیوں پر اُگنے والے اس درخت کے عین اوپر خوش نما پھول اُگتے ہیں جو اس کی اور ماحول کی خوب صورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسے ’’صحرائی گلاب‘‘ والا درخت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ درخت صرف سقوطرا اور براعظم افریقہ کے جنوب کے کچھ علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اس کی جڑوں اور بیجوں میں انتہائی خطرناک زہر پایا جاتا ہے۔ قدیم افریقی قبائل اور شکاری ان سے نکلنے والے گاڑھے مواد کو اپنے تیروں پر لگاتے اور یوں ان سے شکار اور لڑائی کا خطرناک کام لیتے تھے، جب کہ مقامی مچھیرے اس کی ٹہنیوں کو شکار سے پہلے پانی میں پھیرتے ہیں جس سے مچھلی مدہوش ہوکر بہ آسانی شکار ہوجاتی ہیں۔ اونٹوں اور دیگر مویشیوں کے چرواہے اس درخت کے کچھ حصوں سے جانوروں کی جلد پر موجود جوؤں اور دیگر جراثیم کے خاتمے کا کام بھی لیتے ہیں۔

رینگنے اور اڑنے والے عجیب الخلقت جانور

سقوطرا جزائر میں درجنوں ایسے نایاب رینگنے اور اڑنے والے عجیب الخلقت جانور موجود ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ وہ کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں آنے والے سیاح ان حشرات العرض کے علاوہ سقوطرا کی خوب صورت مینا، منفرد مینڈک اور بندروں میں خاص دل چسپی لیتے ہیں۔ یہاں پائی جانے والے نیلے رنگ کی ببون مکڑ ی اپنی خوب صورتی کی وجہ سے مشہور ہے۔ کسی حد تک زہریلا ہونے کے باوجود اس نایاب مکڑی کو پالتو جانور کے طور پر بھی دنیا کے مختلف حصوں میں لے جایا جاتا ہے۔

سفید ریت والا منفرد ریگستان

انفرادیت سے بھرپور اس جزیرے کا ساحل بھی اپنی مثال آپ ہے۔ سفید ریت پر مشتمل یہ ساحل قدرتی حسن کے پیاسے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا چلا جاتا ہے۔ اس جادوئی منظر کو دیکھنے دنیا بھر سے سیاح یہاں کے ساحل کا رخ کرتے ہیں، کیوںکہ سقوطرا کا سفید ریت اور پہاڑوں پر مشتمل طویل ساحل نہ صرف صاف ستھرا ہے بلکہ پُرسکون بھی ہے جس کا دنیا کے دیگر ساحلوں پر تصور بھی مشکل ہے۔

مریخ نما پہاڑی سلسلہ

80 بائی 30 میل کے اس جزیرے کا قابل دید ساحل اس کے جنوب میں ہے۔ سقوطرا کے آبادی والے علاقوں سے سفید ریت والے ان ساحلوں تک پہنچنے کے لیے ایک طویل پہاڑی سلسلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ سقوطرا کی ہر انفرادیت کی طرح اس کا مریخ نما یہ پہاڑی سلسلہ بھی دل فریب ہے۔ ان پہاڑوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے سیاح اپنے آپ کو کسی سائنس فکشن فلم کے منظر میں محسوس کرتے ہیں۔

پُراسرار اور اچھوتے درختوں سے ڈھکے پہاڑ

مریخ نما پہاڑوں کا سلسلہ ایسے پہاڑوں سے منسلک ہوجاتا ہے جو کہ جابجا عجیب الخلقت درختوں سے پُرنظر آتے ہیں۔ یہ درخت ہزاروں سال سے یہاں ہیں، لیکن اب ان کی تعداد بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی ہے جو کہ ماحول دوست اداروں کی نظر میں ایک توجہ طلب مسئلہ ہے۔

ہوا میں معلق درخت

جزیرے میں زندگی کی غیرمعمولی اور منفرد شکلوں کے علاوہ، بہت سارے عجیب و غریب نظارے بھی ہیں۔ پہاڑوں کے کناروں اور نہایت ناقابل یقین جگہوں پر اُگے درخت بتاتے ہیں کہ یہ جزیرہ پیدل سفر اور پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے بہترین ہے۔ سیاح جزیرے کے پہاڑی علاقوں میں اسی طرح کے عجیب و غریب مناظر سے خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ جزیرے کے الگ تھلگ ہونے اور انسانوں کا عمل دخل نہ ہونے کے نتیجے میں یہاں پودوں اور جانوروں کا ارتقاء انتہائی خوب صورتی کے ساتھ ہوا ہے ، جس کے باعث یہاں کا ہر نظارہ عجیب اور اجنبی نظر آنے والا ہے۔

دُھند کے جادوئی مناظر

سال کے بیشتر حصوں اور خاص کر مون سون کے موسم میں بارشوں کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی کے پہاڑی سلسلے دُھند میں گُم ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ دھند کے یہ سحرانگیز مناظر کشتی رانی کے دوران بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ دھند کے بادل پہاڑوں کو اپنی آغوش میں لیے رکھتے ہیں۔

قدیم کھنڈرات

2 ہزار سال سے آباد اس جزیرے پر کھنڈرات بھی بہ آسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ تاریخی اہمیت کے حامل یہ آثار مغربی ممالک کے سیاحوں کے لیے نہایت جاذب نظر ہیں۔ دیکھ بھال سے محروم قلعوں اور آبادیوں کا یہ قدیم ورثہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، جو کہ صدیوں پرانی سقوطرا تہذیب کی کہانی بیان کرتا ہے۔

پہاڑی غار

سقوطرا کے وسطی پہاڑوں سلسلوں کے اختتام پر جنوب میں سیکڑوں غار ہیں۔ غاروں کے اندر ٹپکنے کے بعد جمنے والی اور زمین سے نمودار ہونے والی نوکیلی معدنیات سے ان کا منظر انتہائی خوف ناک اور دیدنی ہے۔ یہ غار یقینی طور پر سقوطرا میں موجود عجیب الخلقت جان داروں کا مسکن تو ہوں گی ہی لیکن سیاحوں کے لیے بھی یہ دل چسپی کا سامان ہیں۔ مغربی ممالک سے آنے والے سیاح اپنے دورے کو یادگار بنانے کے لیے خاص طور تصویر کشی کی غرض سے ان غاروں کا رخ کرتے ہیں۔

 سمندری حیات سے مالا مال

جنوبی ساحلی پٹی کے مقابلے میں شمال اور اطراف کا سمندر بھی سقوطرا کے باسیوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، کیوںکہ یہ سمندری حیات سے مالامال ہے۔ اور مویشی پالنے اور کھجوروں کی تجارت کے علاوہ ماہی گیری بھی اس جزیر ے باسیوں کا اہم ذریعہ معاش ہے۔ کھلے سمندر اور انتہائی کم شکار کی وجہ سے عام مچھلیوں کے ساتھ ساتھ ڈولفن اور وہیل مچھلیوں کو بھی بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کی باقیات

یوں تو پراسرار موسموں اور طلسماتی طول و عرض کے حامل اس جزیرے کا ہر حصہ قابل دید ہے، لیکن جنگ عظیم دوم کی باقیات بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ریت میں دبی یہ باقیات اب بھی جابجا موجود ہیں۔ پہلے جرمنی، پھر امریکی اتحادی افواج اور پھر روس کے زیرتسلط رہنے والے عسکری اہمیت کے حامل اس جزیرے کی تاریخ سمجھنے کے لیے یہ تباہ شدہ اسلحہ بہت معاون ثابت ہوتا ہے جو کہ بہ زبان خود اپنی داستان بیان کرتا ہے۔

یہ سب اور بہت سی دیگر وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدرت سے محبت کرنے والوں کو سقوطرا کی سیر ضرور کرنی چاہیے۔

 


Comments

Popular posts from this blog

اپنے حصے کی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کیجئے

نوسر بازوں کے بدلتے انداز

اردو کا نفاذ