اپنے حصے کی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کیجئے


سورج کی پہلی کرن سے رات کے پچھلے پہر تلک حضرت ِانسان کے شکوے بھی اس کے ساتھ بیدار رہتے ہیں ۔حقو ق کے فقدان، خرابیٔ نظام ، بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اوراس جیسے ان گنت شکوے ۔ہماری نجی محفلوں سے لیکر پرائم ٹائم تک چلنے والے ٹاک شوز اور مباحثوں کا مرکزی خیال انہی شکوں پر مبنی ہوتا ہے ۔اپنے دیرینہ مسائل کے لئے ہم خود کیا کچھ کرسکتے ہیں جو ہم کرتے ہی نہیں ، اس بارے کوئی نہیں سوچتا۔ایک مصور کا واقعہ ہمارے معاشرے کے ان رویوں کی خوب عکاسی کرتاہے ، جب ایک مصور باپ نے اپنے بیٹے سے کہا بیٹاایک شاہکارتصویر بنائو اور اسے قصبے کے بیچوں بیچ رکھواور اعلان کروا د و کہ جسے جو بھی غلطی نظر آئے وہ اس تصویر کے نیچے درج کر دے ۔بیٹے نے سوچا کہ میرے شاہکار میں بھلا کوئی کیسے نقص نکال سکتا ہے لیکن والد کا حکم بجا لایا اور ویسا ہی کیا ۔ اب جب اگلے رو ز وہ وہاں پہنچا تودیکھا کہ تصویر کے نیچے جو خالی جگہ تھی اب بھر چکی تھی ۔ لوگوں نے دل کھول کر اس شاہکار کے نقص بیان کئے۔  بیٹا منہ لٹکائے باپ کے پاس پہنچا تووہ بولا گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اب کی بار میں تمہیں ایسا گر بتائوں گا کہ دیکھنے والوں کے منہ بند ہوجائیں گے۔ اس نے بیٹے سے ایک اورہو بہو ویسی ہی تصویر بنانے کا کہااور دوبارہ وہیں رکھنے کا حکم دیا البتہ اس نے بیٹے سے کہا کہ اب کی بار اس پر لکھ دو کہ جس کسی کو جو غلطی نظر آئے اسے درست کردے ۔ بیٹے نے ویسا ہی کیا ۔اب جب دوسرے روزبیٹا وہا ں پہنچا تو اس کی حیرانگی کی کوئی انتہا نہ رہی اس نے دیکھا کہ تصویر کو اس بار کسی نے چھووا بھی نہیں ۔ بیٹا دوڑتا ہوا والد کے پاس پہنچا تو وہ سمجھ گیا۔ والد نے بیٹے سے کہاتم ایک ماہر مصور ہو اور مجھے تمہاری صلاحتیوں پر کوئی شک نہیںمگر میرا مقصد تمہیں دنیا کے رویوں سے متعلق سمجھانا تھا کہ یہاںلوگ خامیاں تو بہت نکالتے ہیں البتہ کبھی کوئی کسی خامی کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اگر ایک کامیاب انسان بننا چاہتے ہو تو کبھی صرف غلطیوں کو نہ پکڑنا بلکہ اسے درست کرنا یا اسے درست کرنے میں مدد کرنا۔
اگر ہم ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جس رستوں سے ہم روز گزرتے ہیں ، جن محلوں میں ہم رہتے ہیں ، جن اداروں میں ہم کام کرتے ہیں وہاں بلاشبہ مسائل کا انبار ہے ،لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیںجنہیں اگر ہم خود حل کرنا چاہیں تو با آسانی کر سکتے ہیں اور ان کیلئے بہت زیادہ سرمائے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، اگر ہم ان مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا ارادہ کریں تو بہت کچھ بدل سکتاہے۔
سماجی ذمہ داریوں کے تعین اور تلقین کے حوالے سے دورِ حاضر کے تصورات اور قوائد و ضوابط اپنی جگہ البتہ دین فطرت اسلام نے 14 سو سال قبل جو اصول و ضوابط دیئے وہ تاقیامت احساس مند معاشروں کیلئے مشعل راہ ہیں۔ اسلام انسانوں کو صرف اپنے خالق کے مقام و مرتبے سے روشناس نہیں کرواتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو ایک معاشرتی لڑی میں بھی پروتا ہے ۔دین خداوندی نے حقوق اللہ اور حقوق عباد کی الگ الگ تشریح اور حد بندی کرکے انسانوں میں معاشرتی ذمہ داریوں کے احساس کو اجاگر کیا ہے ۔ جہاں صرف حقوق کی بات نہیں ہوتی بلکہ فرائض کی ادائیگی بھی ضروری ہوتی ہے ۔ چھوٹوں بڑوں، رشتہ داروں ، پڑوسیوں کے باہمی تعلقات ہوں ، رستوں کے حقوق ،معاشرے کے مجبور و محکوم طبقے کی بات ہو، یا ملک و قوم کے تحفظ کی اسلام نے ہر ہر طریقے سے اجتماعی اور انفرادی سطح پر ذمہ داریوںکے احساس کی ترغیب دی ہے۔ صاحب استطاعت افراد زکوٰۃ ، عشر اور صدقات کی بدولت معاشرے کی فلاح کی ذمہ داری میں بھی حصہ دارہیں۔ اسلام نےان سب اعمال کے بدلے اخروی انعاما ت اور رب کائنات کی خوشنودی کی نوید بھی دی ہے ۔
دورِ حاضر میں سرمایہ دارانہ طبقے میں معاشرتی سدھار کو اجاگر کرنے کیلئے 1960ء سے ایک اصطلاح کی بنیاد ڈالی گئی جسے Corporate Social Responsibility  یعنی صنعتکاروں کی سماجی ذمہ داریاں CSRکہا گیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کی تشریح میں کئی طرح کا فرق آیا البتہ ان تمام تشریحات کا بنیادی نقطۂ خیال یہ تھا کہ کس طرح صنعتکار رضاکارانہ طور پر معاشرے کی تعمیرو ترقی اور اس کے مسائل کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔گو CSRکاتعلق ماحولیاتی آلودگی کے سد باب کیلئے کی جانے والی کوششوںبھی ہے البتہ یہ ایک وسیع المعنی پروگرام ہے جس کے ذریعہ صنعتیں عوامی فلاح کاموں میں معروف سماجی تنظیموں اور مصیبت زدہ افراد سے نقد اور اجناس کی شکل میں تعاون کرتی ہیں ، مفاد عامہ کے وہ تمام کام جس سے عوامی خدمت ممکن ہو، عوام میں شعور اور آگہی کی مہم ،اپنے رضاکار وں کی مدد سے فلاح کےکام بھی اس سلسلے کی کڑی ہیں ۔CSR پرعمل درآمد کرنا یا نہ کرنا کوئی اختیاری معاملہ نہیں مغرب میں یہ ضابطہ ایک قانونی حیثیت رکھتا ہے اوراس پرعمل ایک لازمی جز ہے۔
غرض ایک صحت منداور مہذب معاشرے کے قیام کیلئے (جس کی خواہش ہر کوئی رکھتا ہے ) معاشرے کے ہر فرد کوانفرادی اور اجتماعی سطح پر وہ ذمہ داریاں ادا کرنا ہونگیں جو نہ صرف موجودہ دور کے اصول و ضوابط ہیں بلکہ ہمارا دین بھی ہمیں ہمارے ان فرائض سے روشناس کرواتا ہے ۔صرف حقوق کی بات کرنے اور فرائض سے نظریں چرانے سے کوئی معاشرہ مثالی نہیں بن سکتا۔اس کے لئے ہمیں اپنے اندراحساس کی شمع جلانی ہوگی اور اپنے حصے کے فرائض ضرور ادا کرنے ہوں گے۔
درد ِدل کے واسطے پیدا کیا انساں کو 
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کر ّو بیاں

Comments

Popular posts from this blog

نوسر بازوں کے بدلتے انداز

اردو کا نفاذ