اردو کا نفاذ


ہم اپنی پہچان کی جنگ لڑ رہے ہیں
اردو کے ساتھ ہمارے امتیازی سلوک پر مخصوصی تحریر
از قلم:  محمد اجمل طاہر
روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین  24 مارچ 2019ء

انسانوں کے گروہ ایک قوم ، ایک جماعت اور ایک قبیلے کی صورت تب اختیار کرتے ہیں جب ان کے مابین بنیادی معاملات پر یکسانیت پائی جاتی ہو ۔ زبان ان تمام اسباب میں نمایاں اہمیت کی حامل ہے جن کے باعث لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں اور دنیا انہیں ایک قوم کے طور پر جانتی ہے ۔ دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد لگ بھگ 7ہزارہے ۔ ان میں 100 نمایاں اور اہم زبانوں میں ایک زبان وہ بھی شامل ہے جس کا باقاعدہ آغاز کئی صدیوں پہلے برصغیر سے ہوا ،اطراف کی زبانوں کا اس پرگہرا اثر ہونے کے باعث اسے لشکری زبان کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، اس کا قدیم نام ریختہ بھی تھا اوربعد میں دنیا اسے اردو کے نام سے پہچاننے لگی۔ برصغیر کے طول عرض کے مسلمانوں کے مابین اردو زبان نے مواصلاتی تعلق کاکام کیا ۔ اپنے اسی کردارکی بدولت اردو نے وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم زبانوں کے حصے میں آیا۔ اس وقت دنیا بھر میں کروڑوںلوگ باقاعدہ اردو بولتے ہیں ۔ دنیا بھر سے شائع ہونے والے ان گنت اخبار و جرائد اور بے شما ر ریڈیو و ٹی وی چینلز اس بات کے غماز ہیں کہ اردو بھی اپنا وز ن رکھتی ہے ۔
چرچا ہر ایک آن ہے اردو زبان کا
 گرویدہ کل جہان ہے اردو زبان کا  
(شاعرعلی شاعرؔ)
            مقام صد افسو س ہے کہ اردو زبان کی تمام ترنفاست اور نزاکت کے باوجود اسے بولنے والوں نےاردو کو وہ مقام نہ دیا جو اسے دیا جانا چاہئے تھا ۔ اردوآزادی کے بعدجہاں پاکستان کی قومی زبان کا درجہ پائی وہیں ہم ہندوستا ن میں اپنے سے بھی زائد اہل زبان چھوڑ آئے ۔ اب ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سرحد کے دونوں پا راردو خوب پھلتی پھولتی لیکن عملی طور پر ایسا نہ ہندوستان میں ہوا اور نہ ہی پاکستان میں ۔زبان کی ترقی صرف شعراء اور ادیبوں کے چائے خانوں تک ہی محدود رہی ، جہاں بلا مبالغہ دونوں اطراف سے بہت کام ہوا۔ مگر مادی ترقی کے اس دور میں اردو پڑھ کر ترقی اور معیشت کی منازل طے کرنا تقریبا ناممکن بنا دیا گیا ہے مزید برآں عوام بھی بدیسی زبانوں بالخصوص انگریزی کے مقابل شکست تسلیم کر چکے ہیں ۔ اس ذہنی احساس کمتری کے پیچھے جہاں صنعتی اور تجارتی شعبوں کی بے اعتناعی کارفرما ہے وہیںہمارے ذرائع ابلاغ پر پیش کی جانے والی بدیسی دنیا کی دلفریب عکاسی بھی اس کی ایک بہت بڑی وجہ بن رہی ہے ۔ بیرون دنیا کی چکا چوند دکھا کر یہ بات باور کروائی جارہی ہے کہ یہ سب انگریزی ہی کی بدولت ممکن ہے ۔
مصلحت کے حصار میں اے موجؔ
قید  اردو  زبان  بھی  ہم  بھی 
(محمد علی موجؔ)
اور تو اور ہمارے سیاسی و عسکری ستارے بھی جب فرنگیوں سے ملتے ہیںتو فر فر ایسے انگریزی کی مالا جپتے ہیں جیسے یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہو ۔یہی نہیں بسا اوقات ایوان نمائندگان (پارلیمنٹ) میں بھی مشکل سوالات کی وضاحت انگریزی میں کر دی جاتی ہے چاہے کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے۔
غریب شہر نے رکھی ہے آبرو ورنہ
 امیر شہر تو اردو زبان بھول گیا   
(ہاشم رضا جلالپوری)
 اس بات سے بھی انکار کسی طور ممکن نہیں کہ انگریزی اس وقت دنیا کے ایک غالب حصے میں تجارتی زبان بن چکی ہے اس سے راہ فرار ممکن نہیں۔ البتہ انگریزی سے اس قدر مرعوب ہوجانا بھی کسی صورت عقلمندی نہیں کہلا سکتاکہ اردو زبان کی کوئی قدر نہ رہے۔ ذرا دنیا بھر میں نظر دوڑائیے وہ تمام اقوام جنہیں ہم ترقی یافتہ گردانتے ہیں کیا وہ اپنی زبانیں ترک کر کے اس مقام تلک پہنچے ہیں ؟ اس کا جواب ہر ایک نفی میں ہی دے گا۔ ہمارے پڑوسی ملک چین کی مثال لیجئےجو اس وقت ہر میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ ھ رہا ہے ۔ آج سے کئی دہائیوں پہلے جب چین آج کے چین سے یکسر مختلف تھا تو ایک بین الاقوامی تقریب میں چینی صدر نے چینی زبان میں خطاب کر کے دنیا کو حیران کر دیا ۔ تقریر کے بعد مائوزے تنگ نے ایک تاریخی جملہ کہا ’’میں انگریزی جانتا تھامگر میںنے چینی میں اس لئے خطاب کیا کہ دنیا جان لے کہ چین کی اپنی زبان ہے ، چین گونگا نہیں‘‘۔ اس تاریخی جملے کا بیرونی دنیا پر اثر ہوا ہو یا نہ ہو لیکن چینیوں پر بہت اثر ہوا اور آج کاترقی یافتہ چین اسی سوچ کا مرہون منت ہے ۔
            اردو زبان کی زبوں حالی کے پیش نظر ۲۰۰۳؁ ء میں سپریم کو رٹ آف پاکستان میں ایک پٹیشن دائر کی گئی جس کی طویل ترین سماعت کے بعد بلآخر ۲۰۱۵؁ ء میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم صادر فرمایا کہ ’’ہماری قومی زبان اردو کو سرکاری زبان بھی بنایا جائے ‘‘۔ اس فیصلے کوبھی اب تین سال سے زائدہو چکے ہیں لیکن ابھی تک یہ تشنہ تکمیل ہے۔ اگر چہ قائداعظم محمد علی جناح  ؒ نےواضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ’’ ہماری قومی زبان اردو ہو گی‘‘ ۔اسی لئے پاکستان کے جتنے بھی آئین بنے ان سب میں اس بارے میں ایک واضح شق رکھی گئی تھی کہ اردو کو سرکاری زبان بنایا جائیگا۔ ۱۹۷۳؁ء کے آئین کے شق ۲۵۱ میںکہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی اور اس کو سرکاری زبان پندرہ سال کے عرصے میں بنا دیا جائے گا۔اس آئینی تقاضے کو بدقسمتی سے پورا نہیں کیا گیا تھا۔
            اس ساری صورتحال میں ہم وہ بیچارے کوے بن چکے ہیں جو ہنسوں کی چال چلنے کے چکر میں اپنی چال بھی بھولتے جارہے ہیں ۔آپ خود مشاہدہ کرنا چاہیں تو دیکھ لیں نئی نسل سےآپ جیسے ہی دوچارثقیل اردو کے الفاظ کہیںتو انہیں سر کھجاتا ہوا پائیں گے ۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ گاڑھی تو کیا پتلی اردو سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں ۔ کتب اور اخبار بینی کا شوق نہ ہونے کی وجہ سے جب کبھی کچھ لکھنا پڑھنا پڑجائے تو جیسے مشکل ہی میں مبتلاہو جاتے ہیں ۔ اوراگر پھربھی موبائل پیغام وغیرہ لکھنا لازم ہی ہو جائے تو کمبخت رومن ہے نا ۔ اب بتائیں رومن طرز تحریر میں تو سادہ الفاظ لکھنابھی کافی مشکل ہوجاتےہیں تو خالص الفاظوں کو لکھنے کا جھنجھٹ کون پالے گا؟۔ اس پر مستعاذ یہ کہ کم سے کم الفاظ میں اپنی بات کہنے کی کوشش میں ہم الفاظ کا وہ بیڑہ غرق کرتے ہیں کہ اگر رومن طریقہ ایجاد کرنے والا دیکھ لے تو وہ بھی سرپکڑنے پر مجبور ہوجائے۔ سیلولر کمپنی نے بھی اردو کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی کرنے والوں میں اپنا نام لکھوایا ہوا ہے ۔کیونکہ اگر آپ انگریزی میں SMSلکھتے ہیں تو آپ165الفاظ لکھ سکتے ہیں اور اگر یہی کام آپ اردو میں کرنا چاہتے ہیں الفاظوں کی تعداد گھٹ کر صرف 65رہ جاتی ہے ۔ تو اس طرح ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جو بہر صورت اردو میں پیغام رسانی کرنا چاہتے ہیں۔ملٹی نیشنل کمپنیز کا کردار بھی اس حوالے سے مشکوک ہے کہ وہ اپنی اشتہاری مہمات میں بلاضرورت اردو رسم الخط کے بجائے رومن کا استعمال کر کے اس کو رواج دے رہی ہیں۔ جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے  سلطنت عثمانیہ کاخاتمہ کرکے جہاں مسلمانوں کے ایک زریں دورکا باب بندکیا وہیں اس نے ترک زبان کو عربی رسم الخط سے رومن زبان میں منتقل کرکے ترکی میں اسلامی تہذیب و تمدن کو وہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کے اثر سے آج بھی ترک قوم نکل نہیں پائی۔اس کا اثر لوگوںکے سوچنے سمجھنے سے لیکر ان کی وضح قطع تک پر ہوا اور آج ترک عوام اور یورپی اقوام میں ظاہری طور پر کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔یہی حال ہمارا ہے کہ اپنی تہذیبی اقدار ترق کرنے کے ساتھ ساتھ ہم خود اپنی زبان کا گلا گھوٹنے پر تلے ہوئے جو ہمیں علوم و فنون سمجھنے میں سب سے زیادہ معاون ہے۔آج ہمارے نزدیک اردوباہمی رابطے اور لین دین کی زبان تو ہے پر ہم اسے اس کا اصل مقام دینے کیلئے تیار نظر نہیں آتے ۔حالانکہ برصغیر میں دین اور دنیا کے علوم کو احسن انداز میں سمجھانے کا جو ملکہ اردو کو حاصل ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں۔ 
            کمپیوٹر کے میدان میں بڑھتی ہوئی ترقی بھی اردو زبان کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے ۔پی ڈی ایف کتب نے مطالعہ  تو آسان بنایا دیاگیاہے لیکن اس سےکتاب لکھنے سے لے کر چھاپنے تک ملوث درجنوں ہاتھوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ جس کتاب کو لکھنے میںعرصہ اور محنت صرف ہوتی ہے ،پھرجب پبلشر خطیر رقم کاغذ ، کتابت ،طباعت ، جلد سازی پر صرف کرکے اسے چھاپتا ہے تو وہ اگلے 10 منٹ میںاسکین ہوکر انٹرنیٹ پر مفت پی ڈی ایف کی شکل میں دستیاب ہوتی ہے۔ اور یوں بیچاری کتاب کتب خانوں کے تختوں پر پڑی قارئین کی راہ تکتی رہ جاتی ہے۔ نہ مصنف کو کچھ ملتا ہے اورنہ پبلشر کوئی ثمر حاصل ہوتا ہے ۔ کتاب لکھنے سے لے کر کتاب چھاپنے تک کے شعبوں کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے جس سے مصنف بیروزگار اور درجنوں شعبے قلاش ہوتے جارہے ہیں ۔ اس سارے عمل نےنئی نسل کواردو بولنے اور سیکھنے سے غیر ارادی طور پر بھی دور کردیا ہے۔پی ڈی ایف کتب سے اردو کتب کاسب سے زیادہ نقصان ہورہا ہے کیونکہ پاکستان میں کاپی رائٹ ایکٹ اور اس پر عمل درآمد اس طرح سے کارگر نہیں جیسے دیگر ممالک میں ہے ۔ مزید یہ کہ پی ڈی ایف کتب کی بھرمار سے کتب بینی پر بھی اثر پڑ رہاہے کیونکہ کسی چیز کی کثرت کے ساتھ بلا قیمت فراوانی اس کی اہمیت بھی کم کر دیتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ واٹس ایپ اور فیس بک پر درجنوں کتب روزانہ کی بنیاد پر مفت آپ کو دستیاب ہوتی ہیں بھلا آپ کتنی کتب کو ڈائونلوڈ کرتے اور مطالعہ کر پاتے ہیں ۔اسی طرح ان پیج جیسے اردوکتابت  کےبے مثال کمپیوٹر پروگرام اور نئے فونٹ بنانے والے بھی قانون کی عمل داری نہ ہونے کے باعث اپنے حق سے محروم اور دیگر شعبے اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
            قومی زبان کے ساتھ اس امتیازی سلوک نے طبقاتی نظام تعلیم کو جنم دیا۔ پاکستان کے 90 فیصدطلبہ تین زبانوں کو بہ یک وقت پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ان زبانوں میں انگریزی، اردو اور صوبائی یا مادری زبانیں شامل ہیں ۔ اس مشقت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب علم دیگر علوم میں پیچھے رہ جاتے ہیں کیونکہ زبانوں کو سیکھتے اور سمجھتے ان کی صلاحتیں مانندپڑ جاتی ہیں ۔ اور یوںسرمایہ دار طبقہ آگے نکل جاتا ہے جو پیسے کے زور پر مہنگے انگریزی اسکولوں سے مستفید ہوتا ہے۔اردو کو مکمل رائج نہ کرنے کے پیچھے امراء کی سوچ بھی سمجھ آتی ہے کہ اس طرح غریب گھرانوں سے بھی قابل لوگ آگے بڑھنا شروع ہوجائیں گے۔نتیجتاً عملی طور پر یہ نظر آتا ہے کہ انگریزی میڈیم تعلیمی ادارے افسر اور عام تعلیمی  ادارے نچلے درجے کے ورکر پیدا کر رہے ہیں۔یہ انگریزی کے تسلط کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہماری نئی نسل فرنگیوں کی تہذیت رسیا بنتی جارہی ہےجو کہ بحیثیت قوم ہمارے لئےسراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
            اردو کے ارتقائی مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے بابائے اردومولوی عبدالحق ذکرلازم ہے ۔اردو کی ترقی کیلئے برصغیر میںجب سب سے پہلی انجمن 1902ء میں ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے عنوان سے قائم ہوئیتومولوی عبدالحق کو انجمن کا سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیاان کے علاوہ اُس وقت کے نامور ادیب ، مصنف اور دانشور بھی انجمن میں پیش پیش رہے۔مولوی عبدالحق نے انجمن کے پلیٹ فارم سے اردو کی ترقی کیلئے لازوال خدمات سرانجام دیں، جن میں سرفہرست ایک لاکھ سے زائد جدید علمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ یا متبادل مہیا کرناشامل ہے اس کے علاوہ انجمن میں ترجمہ کا ایک شعبہ قائم کر کے ان گنت علمی کتب تصنیف اور ترجمہ کا بہترین کام بھی سر انجام دیا۔انجمن ترقی اردو اب بھی کام کر رہی ہے۔آزادیٔ پاکستان کے بعد مولانا پاکستان تشریف لے آئے اور یہاں بھی اردو کی ترقی کیلئے دن رات ایک کیا۔ ان کی انہی خدمات کے پیش نظر انہیں بابائے اردو کہا جاتا ہے۔بھارت میںاب بھی اردودان طبقہ خاطر خواہ تعداد میں موجود ہے لیکن چونکہ وہاں ہندی تسلط کے باعث اردو کے نفاذ کی بات تو نہیں کی جاسکتی البتہ ترقی اردو کے لئے خاطر خواہ کام ہورہا ہے۔ اسی لئے اردو کی ترویج اور تقویت کیلئے سرحد کے دونوں جانب سرکاری اور غیر سرکاری ادارے میدان عمل میں ہیں۔جن کے تحت مختلف مواقع پر علمی و ادبی محافل و مباحثے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میںاس مقصد کیلئے غیر سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر’ قومی کونسل برائے ترقی اردو ‘بھی کام کررہی ہے جو وقتاً فوقتاً ملکی اور عالمی سطح پراردوکانفرنس کا بھی انعقاد کرواتی ہےلیکن اطلاعات کے مطابق اس سال دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کے باعث مارچ میں ہونے والی عالمی اردوکانفرنس میں پاکستانی ادیبوں اور شعراء کو مدعو نہیں کیا جارہا ۔
            اردو چونکہ پاکستان کی سرکاری زبان ہے اس لئے اہل پاکستان پر اردو کی خدمت کی زیادہ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں ۔پاکستان میں سرکاری سطح پر فروغ اردو کیلئے جو ادارے قائم ہیں ان میں ادارہ فروغ اردوزبان(مقتدرہ قومی زبان )،اکادمی ادبیات، مرکز تحقیقات لسانیات،اردو سائنس بورڈاور دیگرادارے شامل ہیں ۔ یہ ادارے فروغ اردو کے روایتی اور جدید طریقوں پر کام کرنے کے پابند ہیں ۔ جبکہ ادارہ فروغ اردو زبان کا ذیلی ادارہ مرکز فضیلت برائے اردو اطلاعیات اردوکی بورڈ کی تدوین پر بھی کام کر چکا ہے ۔اقبال اکیڈمی اور قائد اعظم اکیڈمی جیسے اشاعتی اداروں کے تحت علمی فن پارے بھی شائع کئے جاتے ہیں۔انجمن ترقی اردو ، حلقۂ احباب ذوق ، ترقی پسند تحریک بھی اردو کیلئے قابل ذکر کام میں مصروف عمل رہی ہیں۔ پاکستان میں’’ تحریک نفاذ اردو ‘‘جیسے پلیٹ فارمز سے اردو کے حقیقی نفاذ کی بات بھی کی جاتی ہے ۔ تحریک کے منشور کے مطابق عدلیہ ، مقننہ ، سرکاری دفاتر اور افواج پاکستان سمیت تمام دیگر شعبوں میں اردو کا نفاذ ، تعلیمی اداروں میں اردوکو بنیادی ذریعہ تعلیم کا درجہ دلوانے اور نفاذ اردو سے متعلق آئین پاکستان اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمدان کی جدوجہد میں سر فہرست ہیں ۔اس مقصد کیلئے عوامی ذہن سازی اور رائے کو ہموار کرنے کیلئے مختلف مواقعوں پر سیمینارز ،کانفرسزاور مباحثوں کا انعقاد کروایا جاتا ہے اور سوشل میڈیا کا بھی بھرپوراستعمال کیا جارہاہے۔
            نفاذ ِاردوکیلئے الیکٹرانک میڈیا کے کاندھوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی تمام تر پروڈکشن اردو کی مرہون منت ہےاگر اردو دم توڑ گئی تو کون ان کی بریکنگ نیوز پڑھے گا اور کون انکے ٹکرز کو سمجھ گا؟۔ اس حوالے سے بعض ٹی وی چینلز کچھ کچھ کام کر رہے ہیں جن کے چند پروگراموں میں اردو شناسی اور فہم اردو پر بات ہوتی ہے۔ اسی طرح ایکسپریس چینل پر املا شناسی کا سلسلہ بھی عوام میںاردوفہمی کا شعور اجاگر کرنے میں معاون ہے۔ لیکن اس پر مزید کام کی ضرورت ہے ۔آسان عوامی رسائی کی وجہ سے انٹرنیٹ کی دنیا میں ان گنت ویب سائٹس اردو کیلئے وقف ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے اور نسبتاً معتبر سمجھےجانے والے وکی انسائیکلوپیڈیا پر اردو زبان کا ایک بہت بڑا اور قابل ذکر سیکشن موجود ہے ۔ ماہرین کی ٹیمیں اپنے اپنے انداز سے دینی، علمی ، فنی ، سائنسی ، ادبی اور تاریخی موضوعات کی اردو میں تدوین کر رہے ہیں، اردو وکی کے حجم میں ہر گزرتے لمحے اضافہ جاری ہے۔ ریختہ کے نام ایک بہت وسیع اردو لائبریری کئی سالوں سے ادبی فن پاروں کا مرکزہے۔ یہاں ان گنت شعراء اور نثرنگاروں کی تصانیف جدید یونی کوڈ فارمیٹ میں موجود ہیں ۔ فقط ایک لفظ تلاش کرنے سے پلک جھپکتے سینکڑوں کتب میں جہاں جہاں وہ لفظ استعمال کیا گیا ہوتا ہے وہ سامنے موجود ہوتا ہے۔
            اگر نفاذ اردو کی اس جدوجہد کو حکومتی سرپرستی میسر ہو تو یہ کار خیر بخوبی احسن انداز میں سر انجام دیا جاسکتاہے۔ ابتدائی طور پر کرنے والے کاموں میں  سر فہرست ہر سطح پر اردو کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اردو نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی، سرکاری اداروں میںملازمت کیلئے اعلانیہ اردو میڈیم طلبہ کو فوقیت ،موبائل اور کمپیوٹر پر اردو سافٹ ویئر سازی کی صنعت کو سہولیات کی فراہمی تاکہ اردوذریعہ روزگار بن سکے، جدید علوم سے متعلق انگریزی اصطلاحات کے متبادل الفاظ کی ترتیب، رومن رسم الخط کی حوصلہ شکنی کیلئے قانون سازی، اردو کتب اور سافٹ ویئرز و دیگر خدمات کے حوالے سےکاپی رائٹ ایکٹ کا عملی نفاذ تاکہ حق داروں کو ان کا محنتانہ مل سکے اور ماہرین و مخلصین کی دیگر تجاویز پر عمل بہت اہم ہے ۔
            یہ سب اس لئے بھی ضروری ہے کہ فکری طور پر ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں ، جی ہاں حالت جنگ ، جنگ ہماری بقا ء کی ، ہماری پہچان اور شناخت کی جنگ۔اگر ہم یوں ہی ذہنی طور پر اقوام مغرب کی زبان انگریزی کے جابرانہ تسلط سے مرعوب رہے اور ان کے سامنےذہنی اور فکری پسماندگی کو اپنا مقدر سمجھ لیا تویہ جنگ جیتنا آسان نہیں  ۔اس دیرینہ کشمکش سےنکلنے  کیلئے اردو کا لفظی نہیں باقاعدہ نفاذ بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ جب تک اردو کو ذریعہ تعلیم اور دفتری و قانونی زبان نہیں بنایا جاتا تب تک عوام اسے حقیقی ضرورت سمجھ کر مائل نہیں ہوںگےاور نہ ہی ترقی اس قوم کا مقدر ٹہرے گی۔ دنیا میںجہاں ہر شعبے میں طلب اور رسد کا فلسفہ کارفرما ہے تو وہی اصول زبان کے معاملے میں بھی کسوٹی کاکام کرتا ہے ۔ جب اردو کو اہمیت حاصل ہوگی تو لوگ اسے سیکھیں گے ، اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے ، کتب لکھی جائیں گی، اردو پر کام ہوگا اور یوں اردوکے ذریعے ہماری تہذیب و شناخت کی  بقاء یقینی ہوگی اور طب ، سائنس ، ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہم مؤثر انداز میں آگے بڑھ سکیں گے۔فقط ادبی محافل اور مشاعروں کے انعقاد سے نفاذ اردو کے تقاضوں کا حق ادا نہیں ہوتا اس کیلئے اردو کے مکمل نفاذ کی عملی اور سیر حاصل جدوجہد کی ضرورت ہے۔جوش ؔنے کیا خوب کہا تھا
کھل جائے گر یہ بات کہ اردو زبان پر
تیری نگاہ ناز کا احساں ہے کس قدر


Comments

Popular posts from this blog

اپنے حصے کی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کیجئے

نوسر بازوں کے بدلتے انداز