’ماحولیاتی تبدیلی‘ یہ انسانی حقوق کا بھی مسئلہ ہے

تاریخ اشاعت : 24 فروری 2019ء
بدلتے موسم ، سردی اور گرمی کی شدت ، صحرائوں میں گرتے برف کے ذرے اور سرد ترین علاقوں میں ہلاکت خیز گرمی اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ موسم کے تیور بدل رہے ہیں۔
مختلف خطوں میں روایتی موسموں کا دورانیہ حیرت انگیز طور پر سکڑ رہا ہے اور ان کی جگہ وہ موسم لے رہے ہیں جو کبھی وہاں کے باسیوں کے خواب و خیال میں بھی نہ تھے۔ گذشتہ سال یورپ میں تاریخ کی سخت ترین گرمی پڑی جس سے نہ صرف معمولات متاثر ہوئے بلکہ کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ آج کل سخت سردی کی لپیٹ میں آیا امریکا اور کینیڈا اور شدید بارشوں سے دوچار سعودی عرب خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
حالیہ دنوں میں قطب شمالی سے اٹھنے والے گرداب Polar Vortexسے امریکا کی شمالی ریاستیں اور کینیڈا شدید سردی لپیٹ میں آگیا، اسے ہلاکت خیز سردی کا نام دیا گیا۔ درجۂ حرارت منفی 50 سے اوپر تک پہنچا، جس سے نظام زندگی مفلوج ہوگیا۔ ماہرین کے مطابق گرم ملبوسات کے بغیر صرف 5 منٹ کھلی فضا میں رہنا زندگی کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ شاید تاریخ میں پہلی بار متاثرہ علاقوں میں ڈاک کی ترسیل کا نظام مکمل مفلوج ہوگیا، ریل گاڑی کو چلانے کے لیے پٹریوں پر آگ دہکائی گئی۔ لگ بھگ تین درجن لوگ زندگی کی بازی ہار گئے
اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے غالباً سخت سردی سے جھنجلا کر ٹویٹ کی کہ ’’گلوبل وارمنگ واپس آجائو‘‘ جس پر موسمیاتی ماہرین نے واضح کیا کہ جس عالمی حدت کو آپ اس سردی کے باعث یاد کر رہے ہیں قطب شمالی سے سردی کو امریکا کی جانب دھکیلنے کے پیچھے اسی کی کارستانی ہے۔ اسی لیے اسے ماحول دشمن کہا جاتا ہے۔
دراصل امریکا اور اس جیسے دیگر ترقی یافتہ ممالک جو گرین ہائوس گیسز کے حقیقی اور سب سے بڑے محرک ہیں ان خطرناک گیسوں کو ختم کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتے، اور اب اس موقع پر وہ گلوبل وارمنگ کا ذکر چھیڑ کر دنیا کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ درجۂ حرارت بڑھنے کی جو باتیں کی جاتی ہیں وہ بے معنی ہیں، کیوںکہ امریکا میں تو سردی بڑھ رہی ہے!
موسمی تغیرات اور ان سے ہونے والے نقصانات کی بات تو سب کرتے ہیں مگر یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ دنیا بہت پہلے یہ جان چکی تھی کہ یہ سب ہونے جارہا ہے۔ 1750ء سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب اور عسکری میدان میں ایک دوسرے پر سبقت کی خواہش نے دنیا کے ماحول کو تباہ برباد کردیا، لیکن الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق آج ترقی یافتہ کہلائے جانے والے ممالک جو اس تمام تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں متوسط اور ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی آلودگی کا بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ طویل عرصے تک دنیا کی فضائوں کو زہر آلود اور پانیوں کو گدلا کرنے کے باوجود یہ ممالک اب بھی عملی اقدامات سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ ایسے اقدامات جن سے اس آلودگی کی افزائش کو روکا جائے۔
اس موسمی بگاڑ کے پیچھے کارفرما وجوہات میں گرین ہائوس گیسز بھی شامل ہیں، جن کا بڑا حصہ غیرمحفوظ صنعتوں سے پیدا ہوتا ہے، جب کہ روایتی ایندھن پر چلنے والی گاڑیاں جو بڑی مقدار میں دھواں خارج کرتی ہیں آلودگی کا بہت بڑا سبب ہیں۔ کاربن اور دیگر زہریلی گیسز کے پیداواری عوامل کو انسانیت کی بقاء کے لیے ختم یا محدود کرنا بہت ضروری ہے، کیوںکہ یہ سانس اور دیگر بیماریوں کی وجہ تو ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ زمین کے درجۂ حرارت میں بھی غیرمعمولی اضافے کا باعث ہیں، جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، جس سے ہمارا روایتی موسمی نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔
اسی طرح دیگر ایسے امور پر عمل بھی بہت ضروری ہیں جو اس موسمی تبدیلی کو روکنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں جن میں سر فہرست ماحول دوست درختوں کا لگانا ہے جو ایک جانب غذائی ضروریات بھی پورا کرتے ہیں اور دوسری جانب فضا کو بھی نکھارتے ہیں، کیوںکہ دن بدن بڑھتے شہروں اور رہائشی علاقوں سے جنگلات بری طرح متاثر ہوئے اور درختوں کو بے انتہا کاٹا گیا ہے۔ کلائمٹ چینج کی ایک اور بہت بڑی وجہ مصنوعی کھاد، ہائبرڈ بیج اور کیڑے مار ادویات کو بھی سمجھا جاتا ہے۔
ویسے تو پورا ملک ہی ان موسمی تبدیلیوں سے پریشان ہے لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ پاکستان کی 1050کلومیٹر ساحلی پٹی کا ایک قابل ذکر اور مصروف حصہ سندھ میں واقع ہے۔ اس تمام ساحلی پٹی پر آباد ماہی گیروں کا ذریعہ معاش مچھلی اور جھینگے کا شکار ہے ، کیوںکہ یہ بیلٹ نہ صرف شکار کے لیے موزوں ہے بلکہ یہاں واقع تمر کے جنگلات دنیا بھر سے آنے والی انواع اقسام کی سمندری حیات کے لیے افزائش نسل کا پُرکشش مقام بھی ہے۔ مینگرووز یا تمر کے جنگلات ایک جانب مچھلیوں اور دیگر سمندری حیات کی نرسری کا کام کرتے ہیں جہاں ان کی خوب افزائش ہوتی ہے اور دوسری جانب یہ قیمتی پودا ساحلی پٹی کو کٹائو سے بھی بچاتا ہے۔
یہ جنگلات جہاں بدلتے موسموں اور صنعتی فضلے کی زد میں ہیں وہیں ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ماحول دشمن لالچی عناصر ان جنگلات کو مختلف بہانوں سے نقصان پہنچا رہے ہیں اور فروخت کررہے ہیں۔ اس گھنائونے کاروبار کے سدباب کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، کیوںکہ قدرتی ماحول کو اپنی اصل شکل میں برقرار رکھنے کے لیے ان جنگلات کا قائم رہنا ناگزیر ہے۔ سمندر کے پانیوں میں زہر گھولتا صنعتی فضلہ ہماری آبی حیات کو بھی ختم کر رہا ہے۔ مچھلیوں کی کئی اقسام معدوم ہوچکی ہیں اور باقیوں کی بقا خطرے میں ہے۔ اس سارے عمل سے نہ صرف ہمارے ماہی گیر بے روزگار ہورہے ہیں بلکہ ملکی سطح پر اہم ایکسپورٹس کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ہمارے جنگلات اور زراعت ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بہت متاثر ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہیٹ اسٹروک جو کہ ہر سال کئی قیمتی جانوں کے زیاں کا سبب بنتا ہے اب ایک عام سی بات ہوچکی ہے۔ کلائمٹ چینج کے سبب پانی کی شدید قلت بھی ہورہی ہے ، جس سے زرعی فصلوں کو نقصان اور جنگلات میں کمی دیکھنے میں آرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بارشیں بھی کم ہورہی ہیں۔ موسمی تغیرات کا سب سے بڑا اثر پانی پر ہورہا ہے۔ بڑھتے درجۂ حرارت کے باعث پگھلتے گلیشئرز ، بارشوں کی کمی اور بے ترتیبی سے پانی کے قدرتی ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ پانی کی کمی سے ہماری زرعی پیداوار بھی سنگین خطرات سے دوچار ہے۔
زیریں سندھ کی ساحلی پٹی میں پینے کے پانی کا بھی فقدان ہے۔ ریت اڑاتے دریاؤں کے پاس سمندر کو دینے کے لیے کچھ بھی تو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر تیزی سے ہماری زمینوں کو نگل رہا ہے۔ ماہی گیر نمائندوں کے مطابق پانی کی بلند ہوتی سطح سے پاکستان کی جنوبی ساحلی پٹی بالخصوص سندھ میں اب تک بہت سے گائوں قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ ٹھٹھہ کے قریب واقع ماہی گیروں کی قدیم بندرگاہ کیٹی بندر کو بھی آہستہ آہستہ سمندر نگل رہا ہے۔ مچھیروں کی اس بندرگاہ میں اب صرف ایک جیٹی موجود ہے، جن کی تعداد کبھی چار ہوا کرتی تھی۔ سمندر کی بڑھتی سطح کے باعث کراچی بھی خطرات لاحق ہیں۔
ماہی گیروں کی طرح کسان بھی پانی کی کمی سے بہت متاثر ہیں اور فصلیں کاشت کرنے اور ان سے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ زیرزمین ناقابل استعمال پانی کی سطح بلند ہونے سے زمین ناقابل کاشت ہوکر برباد ہورہی ہیں۔ اس ساری صورت حال سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور متاثرہ افراد کی قوت خرید میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی کے باعث بڑھتی قیمتیں اور وسائل کی عدم دست یابی کے باعث آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غذائی کمی کا بھی شکار ہے۔ اسی لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجوہات کو نہ روکنا دراصل انسانی حقوق کی پامالی کا بھی باعث ہے اور یہ سب کچھ بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان کو درپیش یہ چیلینجز مختلف فورمز پر زیربحث رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان تمام ماحولیاتی تبدیلیوں بابت پالیسیوں کو جاننے اور پالیسی سازوں تک عوامی اور سماجی آواز پہنچانے کی غرض سے ایک اہم سیمینار منعقد ہوا۔ پی سی ہوٹل کراچی کی پرشکوہ عمارت کے کانفرنس ہال میں منعقدہ اس بیٹھک میں سندھ کے 6 اضلاع سے عوامی اور سماجی نمائندوں نے شرکت کی، اس کے علاوہ حکومت سندھ ، محکمہ آبپاشی اور محکمۂ موسمیات وغیرہ کے نمائندے بھی موجود تھے۔ پاکستان فشر فوک فورم اور آکسفام پاکستان کے باہمی تعاون سے ہونے والی اس تقریب کا مقصد موسمی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہونے والے مسائل اور حل کے لیے حکومتی پالیسی کو زیربحث لانا تھا۔
سیمینار میں آبی ماہر فتح مری نے بتایا کہ سندھ ویسے ہی غذائی قلت کا شکار ہوتا جارہا ہے جیسے کبھی ہم افریقہ کو دیکھتے تھے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بار بار آنے والے سیلاب، پانی کی قلت یا سمندر کی سطح بڑھنا، ان سب عوامل سے سندھ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ ہمیں بدلتے موسموں کے عوامل کو روکنے کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو بھی بدلنا ہوگا تاکہ اس صورت حال سے مطابقت پیدا کرسکیں، جیسے کینیڈا وغیرہ جیسے ممالک اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال رہے ہیں۔ کلائمٹ چینج کے باعث ہماری جی ڈی پی بھی متاثر ہے جس سے غربت بڑھ رہی ہے۔ ایک سماجی کارکن نے بتایا کہ سندھ میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے گلاب کے پھول کی کاشت 50 فی صد رہ گئی ہے۔
سردار سرفراز ڈائریکٹر میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ سندھ نے بتایا کہ کس طرح عالمی درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے سمندر کی سطح بھی بلند ہورہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر فرانس اور پولینڈ میں حالیہ سالوں میں اس موضوع پر بڑی بڑی کانفرنسز ہوئی ہیں، تاہم آلودگی پیدا کرنے والے بڑے ممالک نہ صرف کلائمٹ چینج کے موضوع پر کوئی پالیسی بننے کے مخالف ہیں بلکہ دنیا کو گرین ہائوس گیسز میں کسی قسم کی کمی کی یقین دہانی بھی نہیں کروانا چاہتے۔
پاکستان کے 26 شہروں کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ مون سون کا موسم سکڑ رہا ہے، خاص طور سندھ میں جہاں بارشیں زیادہ تر مون سون کے موسم میں ہوتی ہیں بارشیں نہ ہونے سے پانی کی شدید کمی کا شکار ہے، جب کہ ساحلی پٹی میں آنے والے سمندری طوفانوں کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ سیمینار کے منتظم پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ انسانوں نے قدرت کو فتح کرنے کی کشمکش میں ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
ماحول کا توازن بگڑنے سے درجۂ حرارت بڑھ گیا ہے، بارشیں کم ہوگئی ہیں، طوفانوں میں شدت ہے۔ فضا میں گرین ہائوس گیسز کی مقدار بڑھنے سے سمندر کا درجۂ حرارت بھی بڑھ رہا ہے جس سے سمندری حیات خطرات سے دوچار ہیں۔ اور سمندر کی سطح بلند ہورہی ہے جس سے ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی ساحلی آبادیاں ختم ہورہی ہیں جب کہ بڑے شہر بھی سونامی جیسے خطرات کی زد میں ہیں۔ اگر سمندر کی سطح اسی طرح بلند ہوتی رہی تو سندھ کے تین اضلاع ٹھٹھہ، بدین اور سجاول کے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ ساحلی پٹی میں پینے پانی کی بھی شدید قلت ہے۔ زیرزمین پانی ناپید اور ناقابل استعمال ہوتا جارہا ہے۔
دریائے سندھ میں پانی کی قلت سے انڈس ڈیلٹا میں دریا کا پانی نہیں جارہا۔ دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک جو اس ساری خرابی کے ذمہ دار ہیں وہ گرین ہائوس گیسز کو کم کرنے کے بجائے دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیں درخت لگانے اور آبادی کو کنٹرول کرنے جیسے حل بتاکر خود گرین ہائوس گیسز کی پیداوار میں مصروف ہیں۔ جب تک ان گیسز میں کمی نہیں کی جاتی اُس وقت تک ماحول میں بہتری کی امید فضول ہے۔ سندھ کی سطح پر اس حوالے سے جلدازجلد ایک جامع پالیسی بہت ضروری ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز، سول سوسائٹی، ماہی گیر، کاشت کار اور عوامی نمائندوں کی مشاورت سے بننی چاہیے، تاکہ پاکستان اس صورت حال کا مقابلہ احسن انداز میں کرسکے۔

Comments

Popular posts from this blog

اپنے حصے کی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کیجئے

نوسر بازوں کے بدلتے انداز

اردو کا نفاذ