بقا ء کی جنگ لڑتے بحرالکاہل کے گمنام جزائر
از قلم: محمد اجمل طاہر
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) 25 اگست 2019ء
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین) 25 اگست 2019ء
بحرالکاہل دنیا کا سب بڑا سمند ر ہے جسے Pacific Oceanبھی
کہا جاتا ہے ۔ اس کے نام کی وجہ اس کا پرسکون ہونا ہے۔ یہ دنیا کے چار بڑے بر
اعظموں ایشیا ، آسٹریلیا ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے بیچ واقع ہے ۔ یہ
زمین کے کل رقبے کےایک تہائی حصے پر مشتمل ہے۔تاحد نگاہ پھیلا یہ سمندر اپنے اندر
ایک پر اسرار خاموشی سموئے ہوئے ہے ۔ دنیا کی 60فیصد مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات
بحرالکاہل سے ہی آتی ہیں۔دنیا کے 75 فیصد آتش فشاں بحرالکاہل میں موجود ہیں، جن
میں سے ایک بڑی تعداد زیرزمین آتش فشانوں کی بھی ہے۔بحرالکاہل کے چاروں طر ف آتش
فشانوں کا ایک طویل سلسلہ بھی واقع ہےجسے ماہرین ارضیاتRing
of Fireیعنی آگ کی انگوٹھی کا نام دیتے ہیں۔ دنیا
کی بحری تاریخ کےبہت سے بڑے حادثے 11 ہزار میٹر تک گہرے اسی سمندر میں واقع ہوئے ۔
ابھی حال ہی میں ایک کارگو شپ کا حادثہ ہوا جس میں کار بنا نے والی کمپنی کی3500
گاڑیا ں جہاز سمیت سمندر برد ہوگئیں۔بحرالکاہل نہ صرف بحری جہازوں کی آخری
آرامگاہ ہے بلکہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گےخلائی جہازاورسیٹیلائٹ بھی اپنی عمر
پوری کرنے کے بعد بحرالکاہل میں ہی غرق آب کیے جاتے ہیں۔
اس وسیع وعریز
سمندر میں 25 ہزار سے زائد جزائر موجود ہیں ۔ ان چھوٹےچھوٹے جزائرمیں پھیلی
تہذیبوں کا وجود بحری سفر اور ان کے مسافروں کا مرحون منت ہے ۔ آج کے جدید دور
میں بھی بحرالکاہل کو پار کرنے میں 30 دن تک لگ جاتے ہیں ۔ تو اس بات کا بخوبی
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بادبان کی بدولت یہ بحری جہاز سمندروں میں محو سفر
ہوتےتھے تب بحرالکاہل کو پار کرنا کتنا کٹھن تھا۔ ایسے میں یہ جزائر کسی نعمت سے
کم نہ تھے ۔جن میں سے بعض پرجہازوں کی مرمت ، سامان ضروریات اور علاج معالجے کی
سہولیات بھی میسر تھیں۔ ان جزائر میں آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، فلپائن، جاپان
انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے نامور ممالک آتے ہیں وہیں بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک
بھی شامل ہیں جو کئی کئی سو جزائر پر مشتمل ہیں ۔
یہ جزائر دنیا کی
نظروں سے دور بھی ہیں اورغیر معروف بھی ۔ جنوبی بحرالکاہل میں واقع ان جزائر ی
ممالک کو تین گروپس میں تقسیم کی جاتا ہے ۔ پولینیزیا، مائیکرونیزیااور میلنیزیا۔
نو آبادیاتی دور میں جب طاقتور ممالک دنیا پر اپنے تسلط کیلئے کوشاں تھے یہ جزائر
بھی ان کے زیر قبضہ آتے چلے گئے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے جزائر پربرطانوی
سامراج کی نشانی یونین جیک لہرانے لگی۔ امریکہ ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ کے
زیر تسلط بھی بہت سے ممالک وسطی اور جنوبی بحرالکاہل میں موجود ہیں۔ پہلی اور
دوسری جنگ عظیم میں امریکہ اور دیگر طاقتوں نے ان جزائر کا بھرپور استعمال کیا ،
یہاں فوجی اڈے اور ایئر پورٹ بنائے۔ طویل سفر کے دوران یہ جزائر فوجی دستوں کو
تازہ دم کرنے اور جہازوںکو ایندھن فراہم کرنے کیلئے بے مثال تھے۔ جاپان پر ایٹمی
حملہ کرنے والے جہاز بحرالکاہل کے انہی جزائر میں سے ایک ماریانا آئی لینڈ سے
روانہ ہوئے۔جب کہ یہی جزائر بالترتیب اسپین اور جرمنی کے پاس اور پھر جاپا ن کے
پاس بھی رہے جہاں انہوں نے ملٹری ایئر بیس بنایا جس پربالآخر امریکہ قابض ہوگیا ۔
جب کہ امریکہ کے پرل ہاربر پر جاپانی حملے میں بھی ایسے ہی جزائر کام آئے۔غرض
بحرالکاہل کے جزائر کی خوب بندر بانٹ ہوئی۔آج بھی ان جزائر میں بہت سے ایسے ہیں
جہاں انگریزی اور فرانسیسی سمیت ایسی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کا وہاں تصور ہی
ممکن نہیں۔
فرینچ
پولینیزیا118 جزائر پر مشتمل ایک ایسے ملک کا نام ہے جو فرانس سے باہر فرانسیسی
جمہوریہ کی ملکیت ہے ، یہاں کی سرکاری زبان بھی فرینچ ہے ۔اگر پوری دنیا کا نقشہ سامنے
رکھا جائے تو اس میں ان جزائر کوئی وجودنظر نہیں آتا۔ لیکن آ پ کو حیرت ہوگی کہ
چھوٹے چھوٹے جزائرپر مشتمل اس ملک کا اپناایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے، 48 لوکل
ایئرپورٹس اور2 کمرشل و تجارتی بندرگاہیں بھی ہے۔ یہی نہیں French Polynesia کی اپنی تین کمرشل ایئر لائنز
بھی ہیں ۔لیکن بحرالکاہل کے تمام تر چھوٹے جزائرکی معاشی صورتحال ایسی نہیں ۔
بحر
الکاہل کے وسط میں واقع جزائر میں سےا یک ملک کا نام مارشل آئی لینڈز ہے ۔پہلی
جنگ عظیم کےآغازپر جاپا ن اور جرمنی نے ان جزائر پر قبضہ کیا ۔ جو کہ 1944ءمیں
امریکہ کے زیر تسلط آگیا۔ 1979ءتک باقاعدہ امریکہ کی کالونی ہونے کے سبب یہاں
امریکی ڈالر ہی میں لین دین کیا جاتا ہے۔مارشل آئی لینڈکی آمدن کا انحصارزراعت
اور سی فوڈ پر ہے۔ لیکن پاناما کے بعد مارشل آئی لینڈکو بحری جہازوں کی رجسٹری کا
بڑا مرکز بھی مانا جاتا ہے ۔ یہ جہاز غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت ہوتے ہیں لیکن
انہیں یہاں رجسٹر کروانے کا مقصد یہ ہوتا کہ سخت بحری و لیبر قوانین سے بچا جاسکے
جس کیلئے مارشل آئی لینڈ ز اور پاناما موزوں ترین ہیں۔یہی وجہ ہےکہ مارشل آئی
لینڈ کا نام امریکی کروڈ آئل کے بڑے خریداروںمیں شمار ہوتا ہے باجود اس کے کہ
مارشل آئی لینڈ میںکوئی ریفائنری بھی نہیں جو کروڈ آئی کو ریفائن کر سکے۔
1946ء
سے 1962ء کے دوران امریکہ نے یہاں 105 ایٹمی تجربات کیے جو انتہائی شدت کے تھےاسے Pacific Proving
Grounds کا نام دیا گیا۔ یہ تجربات نہ صرف زمین پر
کئے گئے بلکہ سمندر کی تہہ میں بھی کئے تاکہ سمندر اور بحری جہازوں پر بھی اس کی
تباہ کاریوں کو آزمایا جا سکے ۔ مارشل جزائرکے 11,56جزیرے کل 29حصوں پر مشتمل ہیں
۔ یہ حصے دائروں کی شکل میں واقع ہوتے ہیں اور وسط میں پانی پایاجاتاہے۔ امریکہ نے
ایٹمی تجربوں کےلیے’’ بکنی ‘‘جزائر کو منتخب کیا جو کہ دائرے کی شکل میں واقع
ہیں۔وہاں سے تمام انسانوں کو دوسرے جزائر پر منتقل کردیا۔ تجربات کیلئے خاص طور پر تیار کردہ95 بحری جنگی جہاز ان
جزائر کے وسط میں کھڑے کئے گئے اور ان تجربات کی ہلاکت خیزی کو جانچنے کیلئے مختلف
جانور بھی ان جہازوں پر باندھے گئے۔تجربات تو ہوگئے لیکن اس سے ان جزائر پر زندگی
معدوم ہوگئی اور تابکاری کے اثرات آج تک سامنے آرہے ہیں۔ کئی ہلاکتیں ہوئیںاور
ان گنت لوگ پیدائشی معذوری اورکینسر جیسی خطرناک بیماریوں کا شکار ہوگئے۔درجنوں
جزائر کاشتکاری کے قابل بھی نہیں رہے ۔جب کہ متاثرین آج تک اعلان کردہ 2ارب
ڈالرامریکی امداد کے منتظر ہیں ۔لیکن امریکی سرکار نے اپنی ریاست کا درجہ رکھنے
والے ملک سے اس مد میں امداد کا وعدہ پورانہیں کیا ۔جوہری تجربات سے متاثرہ 60
جزائر میں سے اب تک صرف 1 کو کلیئر کیا گیا ہے۔مارشل آئی لینڈ کی حکومت 2015ء میں
جوہری عدم پھیلائو کی درخواست لے کر عالمی عدالت انصاف گئی جہاں اس نے پاکستان اور
بھارت سمیت عالمی جوہری طاقتوں کو فریق بنایا اور یہ مطالبہ کیا کہ عالمی جوہری
طاقتوں کو 1970ء کے جوہری عدم پھیلائو کے معاہدے پر عمل درآمد پر مجبور کیا جائے
۔ بڑی جوہری طاقتوں نے عالمی عدالت میں دائر اس درخواست کو ہوا میں اڑا دیا ۔
جب
کہ حقیقت یہ ہے کہ بے ہنگم صنعتی ترقی اورجوہری ہتھیاروں کےبے دریغ تجربات نے دنیا
کے موسمی نظام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔آلودگی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے دنیا
کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ۔ جس کے باعث گلیشیئرزپگھل رہے ہیںاورسمندر کا درجہ
حرارت بڑھ رہا ہے ۔سمندری حیات تباہ ہورہی ہے۔ سمندر کی مسلسل بڑھتی سطح کے نتیجے
میں جزائر رفتہ رفتہ غرق آب ہورہے ہیں۔بہت سے چھوٹے جزائر ڈوب چکے ہیں جو کبھی
اپنا وجود رکھتے تھے۔ ماہرین ارضیات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ
مارشل آئی لینڈ سمیت بہت سے جزائر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ یوں یہ جزائر اب
اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ متاثرین کی جانب سے اس تمام صورتحال کا ذمہ دار
بڑھتی ہوئی آلودگی کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں اور ان کے تجربات کو قرار دیا
جارہا ہے جنہیں خود امریکہ نے انہی جزائر میں بے دریغ آزمایا۔
Comments
Post a Comment